Friday, March 18, 2011

حضرت محمد صلی علیہ وسلم کے معجزات مبا رک



                      طیبہ کی گلیوں میں بن جاتے جو ٹھکا نا
                 
                         آ قا کا گدا  ہو ں میں آ قا کا ہوں دیوانہ

Monday, March 7, 2011

آ ج کا مسلمان




  اسلام   اور مساوات


اسلا م علیکم ،
                    قرآن مجید اللہ تعا لی کی آ خری کتا ب ہے جو جبرا ئیل علیہ السلام کے ذریہ سے خاتم  الانبیا و المر سلینن حضرت محمد صلی اللہ الہ و سلم  پر نازل ہوئی - یہ تمام انسانوں
 کیلیے رشد و ہدایت کا سر چشمہ ہے - اس میں طر ح طر ح کے مسا ئل اور احکامات کو نہایت مختصر\
 مگر جا مع انداز میں بیان کیا گیا ہے -
        ہما رے معا شر ے میں کئی معا شرتی اور اخلاقی مسا ئل موجود ہیں-اگر ہم اخلاقی اعتبار سے اپنی اصلا ح نہ کر سکے تو تعلیم و تر بیت کا بنیا دی مقصد ختم ہو کر رہ جاتے
 گا- 
بقول ارسطو
                  "انسان ایک معا شرتی جانور ہے-ماں کے پیٹ سے لے کر موت تک اس کو زندگی گزارنے
کیلئے مختلف رابطوں اور تلقات کی ضرورت ہوتی ہے- جسے معا شرے  کی حا جت نہ ہو وہ خدا ہے یا
درندہ، انسان نہیں -"
اسلام کی اخلاقی اقدار اور مساوات کا قتل جس چیز نے کیا ہے- وہ ذات پات کا نظام ہے  جس کی جڑ یں
ہما رے معا شرے میں اس قدر پیو ست ہو چکی ہیں کہ جنہیں کھودنے کے لئے مظبو ط اخلاقی  ہتیاروں کی
 ضرورت ہے - ہر انسان اپنے آ پ کو ذات کی بنا سوچتا ہے- اگر کوئی  راجپوت ،جٹ،آ رائیں،گجر و غیرہ
 ہے تو وہ دوسروں کو حقیر جانتا ہے -نوبت یھاں تک پھنچ چکی ہے کہ جب کوئی کسی کو نفرت سے کوئی
 جملہ کہتا ہے تو اس کے الفا ظ یہ ہوتے ہیں کہ ،  کمی کمین  سے میں منہ نہیں لگاتا -یعنی وہ اسکو گا لی 
کے طور پر استمعال  کرتا ہے -اس گالی کو وہ ان لوگوں کی مثال سمجھہ کر دیتا ہے -جو اپنے پیشے کے
اعتبار  پہچا نے جا تے ہیں -سب برابر ہیں -
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا:
                         "ہر بچہ اصل فطر ت پر پیدا ہوتا ہے - پھر اس کے والدین اسے یہودی،
                                نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں-"
 گزشتہ ایک عشرے سے  پسماندہ مسلمان‘ جیسے الفاظ کچھ زیادہ سننے میں آرہے ہیں، ورنہ اس سے قبل عام طور پر سماج میں اور خاص طور پر غیرمسلموں کے درمیان یہی سمجھاجاتا تھا کہ مسلمانوں میں ذات برادری اور اونچ نیچ کا مسئلہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تو یہ بات بالکل درست ہے، لیکن سماجی اور تہذیبی اعتبار سے غلط ہے۔ ہم جس سماج میں سانس لیتے ہیں، اس میں ہندؤوں کی طرح مسلمانوں میں بھی ذات، برادری اور اونچ نیچ کا احساس موجود ہے۔ اس احساس اور جذبے کے پیچھے کون سے عوامل کام کر رہے ہیں، یہ ایک الگ بحث کا موضوع ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سی  پسماندہ برادریاں نہایت ہی ذلیل و خوار اور انسانیت سوز زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ننگے بدن رہنا، آئے دن فاقہ کشی کرنا، علاقے کے متمول اور دبنگ لوگوں کے ہاتھوں استحصال اور زد و کوب اور ان کی عورتوں کی آبروریزی بالکل عام بات ہے۔ مجھے اس بات پر بہت دکھ ہے کہ علاقے کے معزز، متمول اور شرفا کی حالت یہ ہے کہ وہ ان سے آنکھیں چراتے ہیں اور حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ایسا کبھی بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ کسی دولت مند انسان کے یہاں کوئی تقریب ہو اور وہ شخص ان پسماندہ افراد کو اس میں شامل کرے۔
ڈاکٹر ا رشد احمد
                             میرے  سینیر رایٹر  نے ایسے ہی ایک شخص سے ان خلف اکبر کی شادی مبارک کے موقع پر یہ سوال کیا کہ ’بھئی! آپ کے پڑوسی جو کہ دلت فرقے سے تعلق رکھتے ہیں،ان کو شادی میں دعوت کیوں نہیں دی؟‘ ان کا جواب سن کر انہوں نے  اپنا سر پیٹ لیا۔ وہ برجستہ بولے ’کیا بتاؤں؟ یہ لوگ شراب پیتے ہیں اور گندے جانوروں کے درمیان زندگی گزارتے ہیں۔ بھلا ایسے لوگوں کو شادی جیسے مبارک موقع پر جس میں میرے وی آئی پی مہمان شامل ہوتے ہیں، کیوں کر بلاؤں۔‘
جب کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کئی متمول مسلمانوں کی گھریلو تقریبات میں امیر غیر مسلم حضرات اپنے کتوں اور نوکروں کے ساتھ شامل ہوتے ہیں اور کثرت سے شراب نوشی بھی کرتے ہیں، لیکن ان کی ان حرکتوں پر صاحب خانہ ناراض نہیں ہوتے، بلکہ فخر سے سر اونچا کیے سماج میں گھومتے ہیں۔ یعنی کتا پالنا اور انگریزی شراب پینا اعلیٰ تہذیب و تمدن کی نشانی ٹھہری اور ٹھرا پینا اور نفع بخش جانوروں کو پالنا معیوب اور حقیر ٹھہرا۔ جب تک ہماری ذہنیت ایسی رہے گی، یقین جانیے  مسلمانوں میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ آج کی تاریخ میں ہی وہ برائے نام ہی مسلمان ہیں اور اسلام کی ہلکی سی کرن بھی ان کو چھو کر نہیں گزرتی ہے اور نہ ہی ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان کی حالت میں کوئی تبدیلی رونما ہو۔
جناب محمد اشرف الہدیٰ اپنے ایک مضمون میں ان کی حالت زار کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچتے ہیں:’میں اپنی ڈیوٹی میں ایک دلت برادری کے ٹولے سے روزانہ گزرتا ہوں۔ بہت ہی افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑ رہا ہے کہ اس علاقے میں آج بھی پہلے جیسی خاموشی ہے۔ا س برادری کے افراد اپنی ٹوٹی ہوئی مٹی کی جھونپڑیوں میں یا تو سو رہے ہیں یا پھر کسی چبوترے یا کھلی جگہ پر نڈھال بیٹھے ہوتے ہیں۔ صبح اٹھنے کے بعد انہیں اپنے بچوں کو کھلانے کی فکر لاحق ہوجاتی ہے۔ اس سلسلے میں وہ اپنے بچوں کو ایک دن پہلے کا بچا ہوا چاول اور پانی جیسی پتلی دال گندے برتن میں دے دیتے ہیں۔ ایسا وہ ہر موسم میںکرتے ہیں۔ جاڑا گرمی اور برسات ہر موسم میں ان کے بچے ننگے گھومتے رہتے ہیں۔ ان کے بدن پر برائے نام کوئی کپڑا رہتا ہے۔‘(قومی تنظیم، پٹنہ، یکم ستمبر2010)
یہ حقیقت کی ایک مثال ہے۔ اس سے روگردانی کرنا ٹھیک اس مریض کے مانند ہے جو جذام جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے اور وہ اس کا علاج کرانے کے بجائے اسے چھپانے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔ ٹھیک آج مسلمانوں کی حالت ایسی ہی ہے۔ ہمیں مرض کی پردہ پوشی نہیں، بلکہ علاج کی ضرورت ہے۔
علی انور پٹنہ کے عالم گنج محلے میں مقیم ایک دھوبی ذات کی شادی کا واقعہ یوں رقم طراز ہیں۔’’عالم گنج محلہ کی امبیڈکر کالونی میں 90ہندو دلتوں کے ساتھ دس گھر مسلم دلت بھی رہتے ہیں، اسی محلے میں محمد جمیل نام کا ایک مسلم دھوبی خاندان بھی رہتا ہے۔ جمیل کی ماں بیوہ نرگس اس بات کو لے کر بہت پریشان ہیں کہ لوگ اپنے کو مسلمان تو کہتے ہیں، لیکن اسے چھوٹی ذات سمجھتے ہیں۔ نرگس بتاتی ہے کہ اس نے اپنے بیٹے جمیل کی شادی کے موقع پر ولیمہ میں بڑے شوق سے مسلمانوں کو دعوت دی، لیکن لوگ نہیں آئے۔ بہت کھانا برباد ہوگیا۔ لوگ دعوت تو قبول کرلیتے ہیں، مگر دھوکے بازی کرتے ہیں۔ صاف کہتے کہ نہیں آئیںگے۔ اپنی برادری کو چھوڑ کر کوئی نہیں آتا۔‘‘
ان واقعات سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس ذات پات اور اونچ نیچ کو اپنے قدموں تلے روند دیا، اسے اپنے سروں کا تاج بنائے ہوئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو عزت و وقار بخش کر ہمیں ایسا کرنے کا پیغام دیا، اس سے اب ہمارا کوئی علاقہ نہیں رہا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے مسلمان ذات پات، اونچ، نیچ، نسل اور نسبی تفاخر، اعلیٰ و ادنیٰ جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہیں اور اس میں اصلاح کی دور دور تک کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔ اللہ ہمیں سماج کے لیے بہتر سوچ و فکر عطا کرے۔
آ مین-